چترا(مفتی احمد بن نذر)جمعیۃ العراقین جھارکھنڈ اب ضلع و مقامی سطح پر کمیٹی کی تشکیل اور ذمہ داریوں ک تقسیم کےلیے کوشاں اور سر گرم ہے۔اسی سلسلے میں چترا ضلع کے بہیرا نامی معروف قصبے میں مفتی نذر توحید المظاہری کے زیر صدارت نشست ہوئی۔مہمان خصوصی کے طور پر رانچی سے جمعیۃ العراقین جھارکھنڈ کے کنوینر مولانا منظور عالم قاسمی،ینگ عراقین کے کنوینر شاہ عمیر،خورشید حسن رومی،مشتاق احمدجب کہ چترا سے ضلعی
کنوینر مولانا نسیم الدین قاسمی نے شرکت کی۔
ریاستی کنوینر مولانا منظور عالم قاسمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ملک کی آزادی کے بعد گوکہ آئین میں ریزرویشن کی تفصیلات موجود تھیں،مگر عملی طور پر اس کا نفاذ منڈل کمیشن کی سفارشات کے بعد اسی کی دہائی میں میں ہو سکا۔افسوس کہ متحدہ بہار میں اس کے بعد کافی دنوں تک ہمیں احساس ہی نہیں ہو سکا کہ ہمیں جنرل کیٹیگری سے نکل کے بیک ورڈ کیٹیگری میں شامل ہونا چاہیے۔پھر نوے کی دہائی میں برادری کی پسماندگی کے پیش نظر محمد علی کلال نامی نوجوان نے اپنی سطح سے کوشش شروع کی اور ڈاکٹر حامد(گیا) کے علاوہ بہار کے دوسرے ذمہ داران سے اس بابت گفتگو کی،جس کی سب نے حمایت کی اور اجتماعی طور پر کوشش شروع کی۔انہوں نے اٹکی کے بارے میں بتایا کہ وہاں 1934ء سے جمعیۃ العراقین دیہی حلقہ کے نام سے پچاسی گاؤں پر مشتمل ایک جمعیۃ اب بھی کار گزار ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی ہم نے جھارکھنڈ کے جن اضلاع یا جن مقامات کا سفر کیا،محسوس ہوا کہ برادری لوگ اس کی ضرورت محسوس کر ررہے ہیں،ان میں بیداری آ رہی ہے۔
ریاستی ینگ عراقین کے کنوینر شاہ عمیر نے کہاں کہ برادری کی بنیاد پر ریزرویشن کا مطالبہ تو اپنی جگہ ٹھیک ہے،مگر حکومتی مراعات و سہولیات سے فائدہ اٹھانے کےلیے پہلے ہمیں تعلیم یافتہ بننا ہوگا،اور اپنی پوری طاقت تعلیم کے حصول کےلیے جھونک دینی ہوگی،تب کہیں جا کے ہمارے مطالبے سے ہمیں کوئی ہمیں فائدہ ہو سکے گا۔
خورشید حسن رومی نےاظہار خیال کرتے ہوئے 1994ء سے لےکر اب تک کی کی جدوجہد کا مکمل نقشہ کھینچنے کے بعد اپنے خاص انداز میں کہا اور بتایا کہ ابھی حال ہی میں “سوڑھی” برادری کو ریاستی حکومت نے بی سی 2 سے بی سی 1 میں شامل کیا ہے،اور یہ اس لیے ممکن ہو سکا کیونکہ ان کے نمائندے ایوان سیاست میں موجود ہیں۔جب کہ ہمارا کہیں کوئی نمائندہ ہے نہ ہماری تنظیم ہے،نہ ہی ہماری کوئی آواز ہے۔آج کی ہماری یہ ساری محنت آنے والی نسل کےلیے ہے کہ آنے والی نسل کو اپنی شناخت کے مسئلے سے دوچار ہونا نہ پڑے۔20 نومبر کو منعقد ہونے والے نمائندہ اجلاس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس میں اب تک چار ریاستی وزراء کو دعوت دی جا چکی ہے،اس لیے ہمیں ان کے سامنے بڑی تعداد میں شریک ہو کر اپنی افرادی قوت کا مظاہرہ کرنا ہوگا،کیوں کہ اس کے بغیر ہمارا مطالبہ ماننا تو درکنار،سنا بھی نہیں جائےگا۔
مشتاق احمد نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ 94ء کے بعد ہماری یہ تنظیم تعطل کا شکار ہو رہی۔انہوں نے برادری کےلیے کی گئی کوششوں اور ان کے نتیجے میں ملنے والی کچھ کامیابیوں اور کچھ ناکامیوں کا قصہ بھی سنایا۔انہوں نے کہا کہ برادری کے چند لوگوں کا معاشی طور پر خوش حال ہو جانا ہرگز اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ پوری برادری خوش حال ہے۔
اخیر میں صدر مجلس مفتی نذر توحید المظاہری نے مختصراً گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم مسئلہ ہمارے متحد ہونے کا ہے۔مختلف اکائیوں میں بٹے ہوئے ہونے کی وجہ سے ہمارا کوئی کام متحدہ پلیٹ فارم سے نہیں ہو پاتا۔ضرورت ہمارے اتحاد کی ہے،تاکہ اس کی بنیاد پر ہم حکومت کی جانب سے ملنے والی مراعات وسہولیات حاصل کر سکیں۔
نشست میں جمعیۃ العراقین کے مقامی ذمہ داران بھی طے کیے گئے۔چنانچہ بہیرا و اطراف کا کنوینر محمد زلفان،ینگ عراقین کا کنوینر محمد سیف اللہ اور جوائنٹ کنوینر محمد آصف کو بنایا گیا۔نشست میں محمد اقبال،سلیم جاوید،حاجی کمال،حاجی پرویز،حاجی عبدالرشید،قاسم عرف منا،محمد شاہ جہاں،قاری ریاست،فہیم رضا،محمد عباس،محمد اسلم،محمد ہاشم،محمد احسان،محمد منظور،محمد جمشید کے علاوہ بھی بہیرا و اطراف کے متعدد لوگ موجود تھے۔مذکورہ معلومات جمعیۃ العراقین جھارکھنڈ کے میڈیا ان چارج اور نوجوان صحافی عادل رشید اور ان کے معاون احمد بن نذر نے مشترکہ طور پر فراہم کیں۔
0 Comments