خادم القرآن جناب حضرت حافط نظیر احمد رشیدی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال مورخہ 2 نومبر 2022 کے دوپہر کو رانچی میں ہوگیا ،اسی تاریخ کو بعد نماز عشاء رانچی کے ڈورنڈا قبرستان میں قرآنی خدمات میں ممتاز ذات کو سپرد خاک کر دیا گیا، اللہ تعالیٰ حافظ صاحبؒ کے درجات کو بلند تر فرمائے۔
مرحوم کو آنکھوں کی بینائی نہیں تھی لیکن قلب پُرنور تھا، جس سے بصارت سے محروم اس ذات نے جو پُر بصیرت خدمات انجام دی ہیں وہ کچھ کر گزرنے والوں کے لئے تحریک کا مضبوط پیغام ہے، مرحوم مدرسہ دارالقرآن ،بڑی مسجد ہندپیڑھی رانچی کے مہتمم تھے پھر انہوں نےمدرسہ انوار العلوم قاسمیہ کے نام سے نور نگر، پرانی رانچی میں اس کی شاخ قائم کی، رانچی کی ہندپیڑھی میں مسلمانوں کی کثیر اور گھنی آبادی ہے ،یوں تو تقریباًپورے شہر میں ان کے فیض یافتہ پائے جاتے ہیں اور ان میں متعدداپنے استاذ کے مشن کی توسیع میں بھرپور کردار ادا کررہے ہیں, مرحوم نے اصلاً ہندپیڑھی کوخدمتِ قرآنی کے لئے اپنا میدانِ عمل بنایا تھا اور پوری زندگی اسی میں لگادی جو کئی دہائی پر مشتمل ہے ،انہوں نے بلا انقطاع، تسلسل اور مرتَّب و منظم انداز میں جس مضبوطی کے ساتھ قرآنی نظامِ تعلیم کوجاری کیا اور اس کو توسیع دیا نیز پروان چڑھایا اس میں مرحوم کی بے لوثی کے ساتھ ان کی حکمت، تدبر اور خدا داد بصیرت کا بڑا دخل رہا ،
وہ شہری شور و غل اور افراتفری نیز ہنگامہ خیزی سے علیحدہ اپنے دُھن میں مشغول رہے،کثرتِ اختلاط اور غیرضروری محافل میں شرکت سے مجتنب رہے،البتہ اکابر اور علماء و صلحاء سےوالہانہ تعلق رکھتے تھے اور ان کی مجالس میں شرکت اور ملاقات کو سعادت سمجھتے تھے،اب جب کہ قلیل کے استثناء کے ساتھ دینی اداروں اوردرسگاہوں کے اجلاسوں میں بھی تقریر کے نام پر تفریح، نعت خوانی کے نام پر غزل وگیت گوئی اورنظامت کے نام پر وقت کی بربادی کا رواج بڑھتا جارہا ہے، حافظ صاحب مرحوم نےدستار بندی کے اپنے اجلاسوں میں اسلاف کی روحانی روایت کو سینے سے لگائے رکھا ، ان کے اجلاسوں میں معتمد اداروں سے منسلک اکابر اور معتمد علمائے کرام نیز مہذّب اور شرعی وضع قطع کے حامل شعراء یا نعت خواں مدعو ہوا کرتے تھے۔
انہوں نے قرآنی تعلیم اور خدمت کا محور بالخصوص ان طلبہ کو بنایا جو اسکول، کالج، یونیورسٹی یا کہئے کہ دنیاوی نظامِ تعلیم میں مشغول ہو تے ہیں، جس کے لئے مساجد سے اعلان کراتے، پمفلٹ بھی شائع کراتےاور گشت کرتے نیز طلبہ اور طلبہ کے گارجین سے خصوصی ملاقات کرکے طلبہ کے اوقات میں سے روزانہ کے ایک گھنٹہ، دو گھنٹہ، تین گھنٹہ کا
” چندہ “ طلب کرتے اور ” چندہ شدہ “کم وقتوں میں محنت کرکے
” ہیر پر ہیرا “ یعنی حفّاظ کی بڑی تعداد ملت کو پیش کرتے رہے، اس کام کے لئے انہوں نے اپنے شاگردوں پر مشتمل محنتی ٹیم کھڑا کیا اور کہہ سکتے ہیں کہ اس نظام تعلیم کے اکثراساتذہ انہیں سے فیض یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں،مدرسہ میں متعدد بلکہ اکثراساتذہ ان کے شاگرد بھی ہیں جوکئی دہائی سے ان کے ساتھ خدمات انجام دے رہے ہیں تاہم حافظ صاحب کے فیض اور تربیت کا اثر ایسا غالب رہا کہ کسی نے ان سے بے نیازی کا کبھی نہیں سوچا، تمام اساتذہ خواہ شاگرد نا بھی ہو اُن سے بھر پور محبت اور تعظیم کا معاملہ کرتے رہے اور ان کے فیصلوں کو بہ حسن و خوبی عملی جامہ پہناتے رہے، کسی استاذ کی زبان سے ان کے سلسلے میں کوئی حرف شکایت نہیں سناگیا ، جو آج کے مدَرسَتی دنیا میں کرامت سے بھی اوپربلکہ تقریباًغیر یقینی چیز ہے، حافظ صاحب تمام اساتذہ کے لئے مقتدیٰ اورمشیرِ نہائی کا درجہ رکھتے تھے اوریہ مقام اس لئے بھی قائم ہوپایا تھا کہ جملہ امور خواہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو ،تمام اساتذہ سے اجتماعی مشورہ کو لازم سمجھتے تھے، ایسا نہیں کہ میں مہتمم ہوں تو ہم چنیں دیگرے نیست۔آج راعین مسجد ،رانچی میں جمعہ کی خطابت دوران حا فظ صاحب کے محاسن و مکارم اور خدمات کا تذکرہ کیا گیا تو مصلیان کے سراپا اور آنکھوں سےبھرپور عقیدت کے ساتھ مرحوم کی خدمات کے لئے خراج تحسین پیش ہورہی تھی ،جملہ مصلیان نے ایصال ثواب بھی کیا اور بلندی ٔدرجات کی دعا بھی ۔
0 Comments