طلاق ثلاثہ وسی اے اے این آر سی کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر عرضی پر سماعت ٹلی، اگلی سماعت سپریم کورٹ میں جنوری فروری میں متوقع،
مضبوطی کے ساتھ لڑاجارہاہے مقدمہ، سپریم کورٹ سے انصاف کی امید۔مولاناغلام رسول بلیاوی
مرکزی ادارہ شرعیہ کاوفد مولاناغلام رسول بلیاوی کی قیادت میں طلاق ثلاثہ ایکٹ اور این آر سی، سی اے، اے کے خلاف دائرمقدمہ کو لیکر سپریم کورٹ میں وکلاء کے ساتھ کررہے ہیں مشورہ۔
نئ دھلی:- مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ کاایک مؤقر نمائندہ وفد سابق ممبرآف پارلیامنٹ، صدر محترم غازئ ملت علامہ غلام رسول بلیاوی کی قیادت میں دو تین دسمبر 2022 کو سپریم کورٹ میں اپنے سینیئر وکلاء کے ساتھ موجود مشورہ کررہے ہیں دودسمبر سی اے اے این آر سی اور طلاق ثلاثہ ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر عرضیوں پر سماعت متوقع تھی تاہم آج دودسمبر کو تاریخ سماعت میں توسیع ہوگئ،
مرکزی ادارہ شرعیہ کے وفد میں غازئ ملت کے ہمراہ ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے ناظم اعلی مولانا محمد قطب الدین رضوی، خواجہ غریب نواز کمیٹی کے ممبر سید بابراشرف، سید فصیح احمد چشتی، قومی اتحاد مورچہ دلی کے ریاستی صدرغلام جیلانی خان شامل ہیں، سپریم کورٹ کے سینیٹر وکلاء میں سیدوسیم قادری ایڈوکیٹ، محمد عرفان احمد ایڈوکیٹ، سید سرور رضاسینیئر ایڈوکیٹ ،محمد اطہرعالم ایڈوکیٹ، ایڈوکیٹ سواتی، ایس بی سنگھ سینیئر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ، اظہر عالم شامل ہیں یہ بات واضح ہوکہ مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ نے طلاق ثلاثہ ایکٹ اور سی اے اے، این آر سی کے خلاف سپریم کورٹ میں چیلنج کیاہے جس میں فریق علامہ غلام رسول بلیاوی اور مولانا محمد قطب الدین رضوی ہیں، غازئ ملت نے کہاہے کہ ابتداء ہی سے مرکزی ادارہ شرعیہ کے علاوہ ملک کے طول وعرض میں پھیلیں ادارہ شرعیہ کی شاخیں اور ان کے ذمہ داران طلاق ثلاثہ بل اور کیب کے خلاف شدومد کے ساتھ صداے احتجاج بلند رکھااور جب ایکٹ بنا دیا گیا تو سدن سے لیکر سڑک تک اور سپریم کورٹ تک ملک وملت ،آئین اور جمہوریت کی حفاظت کی خاطر جنگ لڑرہے ہیں یعنی پورے ملک میں مرکزی ادارہ شرعیہ بہار، ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ، ادارہ شرعیہ بنگال، ادارہ شرعیہ اڈیشہ، ادارہ شرعیہ گجرات، ادارہ شرعیہ راجستھان، ادارہ شرعیہ چھتیس گڑھ، ادارہ شرعیہ تریپورہ، ادارہ شرعیہ آسام، ادارہ شرعیہ مہاراشٹرا، ادارہ شرعیہ اتراکھنڈ، ادارہ شرعیہ کرناٹک نے طلاق ثلاثہ ایکٹ اور سی اے اے واین آرسی کے خلاف سراپااحتجاج بن گیاہے انہوں نے کہاکہ تقریباتین سو تنظیموں نے مذکورہ غیرجمہوری وغیرآئینی دفعات کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کررکھاہے جس میں ساتویں نمبر پر مرکزی ادارہ شرعیہ ایک فریق کی حیثیت سے ہے، بلیاوی نے امید ظاہر کی کہ معزز سپریم کورٹ ضرور انصاف کریگااور طلاق ثلاثہ ایکٹ وسی اے اے کلعدم ورد ہوکر جمہوریت وسچائ کی جیت ہوگی،
مولاناغلام رسول بلیاوی نے کہاکہ مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ نے اپنی جانب سے دائر مقدمہ میں کہاہے کہ طلاق ثلاثہ ایکٹ آئین میں ملی مذہبی آزادی اور مسلم خواتین کے خلاف ہے چونکہ جب گرمیاں بیوی میں ان بن ہوجاے اور گر شوہو اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دیدے تو ایکٹ کے مطابق وہ طلاق نہیں ہوگی اور شوہر کو بلاجرم تین سال کی سزاہوگی اس کے علاوہ شوہر جیل میں رہ کر تین سال تک بیوی کانان ونفقہ اداکرتارہیگا ایکٹ کے مطابق جب شوہر تین سال کی سزاکاٹ کر گھرلوٹیگاتو مطلقہ بیوی کو دوبارہ اسی کے ساتھ بلاقید وشرط رہناہوگا۔ادارہ شرعیہ نے عرضی میں کہاہے کہ ایکٹ کے مطابق جب طلاق ہوگی ہی نہیں تو پھر کس جرم میں سزاہوگی اور جب شوہر تین سال تک جیل میں بند رہیگاتو بیوی کی کفالت کیسے کرسکتاہے اور یہی نہیں بلکہ فطرتاکسی بھی مذہب کی مطلقہ بیوی ہو وہ ایسی صورت میں سابقہ شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہیگی گو کہ ایک طرح سے مدلم خواتین کو یہ ایکٹ سخت اذیتیں دیتارہیگا۔علامہ بلیاوی نے کہاکہ ملک کے آئین میں 1932 کامسلم لاء نافذ ہے جوآج بھی آئین کاحصہ ہے جس میں واضح طور پر تحریر ہے کہ مسلم لاء میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جائیگی تو پھر بار بار عدلیہ کے ذریعہ یاقانون بناکر مختلف قسم کی بے جاانسانی تحفظات کاحوالہ دیکر مسلم لاء میں مداخلت کیوں کی جاتی ہے۔
ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے ناظم اعلی مولاناقطب الدین رضوی نے کہاکہ ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ کے زیراھتمام پوری ریاست میں شریعت بچاؤ کانفرنسوں کے ذریعہ، بتیس لاکھ سے زائد دستخطی مہم چلاکر کنونشن، سیمینار، عوامی اجلاس اور میمورنڈم دیکر نیز رانچی میں تاریخ ساز شریعت بچاؤ کانفرنس کرکے طلاق ثلاثہ بل، کیب، سی اے اے این آر سی کے خلاف صداے احتجاج بلند کی گئی اور اب سپریم کورٹ میں بھی انصاف کے لئے ایکٹ کو چیلنج کیاگیاہے، عدالت عظمی پر بھرسہ ہے کہ یہاں سے جمہوریت اور مسلم لاء کے حق میں فیصلہ ہوگا سپریم کورٹ کے اپنے سینیئر وکلاکو سارے اور مکمل دلائل وکاغذات دے گئے گئے اور یہ سنیئر وکلااگلی سماعت میں سپریم کورٹ میں مضبوطی کے ساتھ بحث کریںنگے
0 Comments