اے اہل وطن شام و سحر جاگتے رہنا

 


اے اہل وطن شام و سحر جاگتے رہنا
اغیار ہے آمادہ شر جاگتے رہنا
حواری مسجد کے خطیب، مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی کے ممتاز و مایہ ناز استاذ، شہر قاضی جھارکھنڈ سرکار اور ہم لوگوں کے دلوں کے دھڑکن حضرت العلامہ مفتی محمد قمر عالم قاسمی نے آج نماز جمعہ سے قبل کھچا کھچ نمازیوں سے بھری حواری مسجد کربلا چوک میں اپنے منفرد بیباکانہ انداز میں تاریخ کے حوالہ سے ہندوستان کی آزادی میں قربانیاں اور شہادتیں پیش کرنے والے ان مجاہدین آزادی کا تذکرہ کر رہے تھےجنہوں نے اس ملک پر قابض وغاصب انگریز حکمرانوں کو دھول چٹایاتھا۔خواہ 1757 میں نواب سراج الدولہ کے نانا علی وردہ خان ہوں جنہوں نے فورٹ و یلیم پر حملہ کرکے ناک دم کر رکھا تھا، خواہ نواب سراج الدولہ کا مقابلہ انگریزوں سے مرشد آباد کے پلاسی کے میدان میں یا پھر میسور میں سلطان حیدرعلی یا پھر ان کے مجاہد فرزند شیر میسور سلطان ٹیپو شہید کی قیادت میں1799 سرنگا پٹنم میں انگریزوں کے ساتھ  محاذ آرائی ہو جس میں شیر میسور نے جام شہادت نوش کیا اور جن کی شہادت کے بعد انگریز جرنل ہارس نے شیر میسور کی نعش مبارک پر کھڑا ہو کر تاریخی جملہ کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔
شیر میسور ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد جنوبی ہند میں ایسٹ انڈیا کمپنی تقریبا قابض ہو چکی تھی اور انگریز آہستہ آہستہ ہندوستان پر حاوی ہونے لگے تھے۔


اس کے بعد مولانا محترم نے ہندوستان کی آزادی میں تحریک شاہ ولی اللہی کا تذکرہ کیا، اپنے والد محترم کی وفات کے بعد اس تحریک کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے آگے بڑھایا اور انہوں نے ہی ١٨٠٣ اٹھارہ سو تین میں ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا تاریخی فتوی دیا جو حقیقت میں انگریزوں کے خلاف اعلان جنگ تھا، اسی ضمن میں بالاکوٹ (اب یہ جگہ پڑوسی ملک کے خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ شہر سے 38 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے) کے مقام پر 1831 میں مشہور جنگ ہوئی جس میں حضرت شاہ اسماعیل شہید اور حضرت سید احمد شہید رحمہما اللہ نے اپنے ہزاروں رفقاء کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔حضرت مفتی قمر صاحب نے کہا کہ یہ تحریک رکی نہیں بلکہ برابر چلتی رہی آسی کی کڑی ملک عزیز کی آزادی کے لیے انگریزوں کے ساتھ ١٨٥٧ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ عظیم ہے جس میں بڑے بڑے علماء و اکابرین نے بنفس نفیس حصہ لیا خاص طور پر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حافظ ضامن شھید، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، احمد اللہ شاہ مدراسی، مولانا عبد الحئی، مولانا ولایت علی عظیم آبادی اور عنایت علی عظیم آبادی رحمہم اللہ وغیرہم جیسے علماء اور مجاھدین سرفہرست رہے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف فتوے صادر کئے اور ان سے لوہا لیا۔
اپنے خطاب کے آخر میں مولانا محترم نے ملک کی آزادی میں میں قربانیاں پیش کرنے والے اکابرین علمائے دیوبند اور جمعیۃ علمائے ہند حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا عبیداللہ سندھی اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہم اللہ اسیران مالٹا کا تذکرہ درد بھرے انداز میں کیا کہ ان حضرات کو کس طرح مالٹا کے جیلوں میں ڈال کر انگریزوں نے مختلف قسم کی اذیت ناک ایسی سزائیں دیں کہ جب حضرت کا انتقال ہوا تو غسل دینے والوں نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ پر زخموں کے گہرے بڑے بڑے نشانات ہیں انہوں نے رشتہ داروں سے پوچھا، گھر والوں سے پوچھا ہر ایک حیران تھے لاعلمی کا اظہار کیا، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے فرمایا یہ ایک راز تھا حضرت نے زندگی میں بتلانے کے لئے منع کیا تھا کہ تم میری زندگی میں کسی کو نہیں بتانا اس لیے یہ ایک امانت تھی مگر جب حضرت دنیا میں نہیں رہے تو اب بتا سکتا ہوں یہ حضرت پر مالٹا کی جیل میں ہونے والے مظالم کے انگاروں کے نشانات ہیں جن پر حضرت والا کو لٹا دیا جاتا تھا جیل کے حکام یہ کہتے کہ محمود اتنا کہہ دو کہ میں انگریز کا مخالف

Post a Comment

0 Comments

MK Advance Dental Hospital
Hopewell Hospital
Shah Residency IMG
S.R Enterprises IMG
Safe Aqua Care Pvt Ltd Image