ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن ،اے خاک وطن....

 



اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا
ترتیب و پیشکش: مفتی محمد قمر عالم قاسمی

 خادم التدریس والافتاء مدرسہ حسینیہ کڈرو رانچی
شہر قاضی جھارکھنڈ سرکاروخطیب حواری مسجد کربلا چوک رانچی

موبائل نمبر-8271922712

  26جنوری 2023 بروز جمعرات کو ہر طرف جشن و خوشی کا ماحول ہوگا پورا ملک بھارت جشن جمہوریت میں ڈوب جائے گا، مگر کیا جس مقصد کے تحت ملک کی آزادی کے لئے ہمارے آباء و اجداد، رہبران قوم و ملت اور علماء و اکابرین  نے زمین و جائیداد، جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں پیش کر کے شہید ہوئے اس منہج پر ہمارا ملک گامزن ہے؟پھر دیار ہند کو آباد کرنے کے لیےجھوم کر اٹھو وطن آزاد کرنے کے لئےہم بھی تیرے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں میںاے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتےاے اہل وطن شام و سحر جاگتے رہنا  اغیار ہیں آمادہ شر جاگتے رہنا۔ لیکن پھر بھی ہم اس موقع پر اپنے ان اکابرین شہداء مجاہدین کو یاد کرتے ہیں۔ جنہوں نے اس دن کے لئے عظیم قربانیاں دیں اور بہت سوں نے ہنستے ہوئے انگریز ظالموں کے پھانسی کے پھندوں کو گلے لگایا۔ 1857 کی تحریک آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے باضابطہ انتقامی کاروائیاں شروع کر دی۔ اس کے نتیجے میں مسلمان خصوصیت کے ساتھ انتہائی طور پر کچل دیا گیا، چاندنی چوک ہی نہیں بلکہ شہر کے ہر چوراہے پر مجاہدین تحریک آزادی کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کے لیے سولیاں نصب کی گئیں

 اندرون دہلی و بیرون دہلی درختوں کی شاخوں پر پھانسی کے پھندے موسمی پھل کی طرح لٹک رہے تھے، جو بھی مسلمان انگریزوں کے ہتھے چڑھ گیا اسے ہاتھیوں پر بٹھایا جاتا، درخت کے نیچے لے جاتے، پھندا اس کی گردن میں ڈال کر ہاتھی کو آگے بڑھا دیا جاتا نتیجہ وہی ہوتا جو ہو سکتا تھا،آنکھیں ابل پڑتیں، زبان منہ سے باہر نکل آتی، ذبح کیے ہوئے مرغ کی طرح وہ جا کنی کا خوفناک عالم کہ الامان الحفیظ۔مجاہدین آزادی میں ڈر و خوف اور ہیبت پھیلانے کے لیے وہ سزا کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے تھے ۔کبھی کسی مسلمان کو پکڑ کر کے توپ کے منہ پر رسیوں سے جکڑ کر باندھ  دیا جاتا اور توپ کے گولے داغ دیئے جاتے۔نتیجتا پورے جسم کا گوشت بوٹی بوٹی ہو کر خلا میں تیرنے لگتا ۔جس طرح تیز ہوا میں درختوں کے پتے اور گرد و غبار اڑا کرتے ہیں۔ یہ خونی ڈرامہ کھلم کھلا ہزاروں تماشہ بینوں کی موجودگی میں کھیلا جاتا تھا۔یہ تھے  دل دہلا دینے والے واقعات۔ اس ملک کی آزادی کا سفر مسلمانوں نے تنے تنہا شروع کیا اور صرف انہی کے تلوے لہو لوہان ہوتے رہے۔جب گلستاں کو خون کی ضرورت پڑی سب سے پہلے یہ گردن ہماری کٹی ،پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن، یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں۔ 

اس بزم  جنوں کے دیوانے ہرراہ سے  پہنچے یزداں تک ہیں عام ہمارے افسانے دیوار چمن سے زندہ تک ،سو بار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے بر ہم کو، یہ اہل جنوں بتلائیں گے کیا ہم نے دیا ہے عالم کو۔ہمارے اس ملک میں جب جب یوم آزادی اور یوم جمہوریہ منایا جائے گا اور فرحت و انبساط کے ترانے گن گنا جائیں گے تو ایسے وقت میں ان سرفروش مجاہدین اور شہداء کو یاد کرنا ضروری ہوگا جن کے خون جگر اس ملک کی مٹی میں ملے ہوئے ہیں۔ ان میں سرفہرست اکابرین دارالعلوم دیوبند اور اکابرین جمعیۃعلماءہند ہیں ۔جنہوں نے ملک کی آزادی کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا۔زمانے کی غلامی کے بعد اسے جمہوریت کی لڑی میں پرونے کے لئے دوسرے برادران وطن کے مقابلے میں ہمارے ملی قائدین کا اہم رول رہا ۔ماضی کے واقعات واحوال سے ہی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔ کسی قوم و ملت اور ملک و سماج کے لیے اس کی تاریخ ہی قوت و توانائی کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے اس ملک کے عزیز کی باگ ڈور اب ایسے فرقہ پرست فاشزم طاقتوں کے اشاروں پر گھوم رہی ہے کہ ملک کی آزادی میں ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ کو ہی باضابطہ پروپیگنڈا کے ذریعے اس طرح مسخ کر دی گئی کہ ہمارے ملک کی آزادی کے تئیں قربانی و شہادت مفروضہ داستانوں کا مجموعہ بن چکی ہے۔کا بینہ وجود کا میں بھی ہوں ایک وزیر ایسا کہ میرا کوئی قلمدان ہی نہیں۔ملک کی آزادی میں علمائے کرام کا جو روشن کردار اور بے لوث قربانیاں رہی ہیں اسے مکمل ہی فراموش کیا جا چکا ہے۔یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کی کس تقریب میں سلطان ٹیپو شہید، نواب سراج الدولہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید، علامہ فضل حق خیرآبادی، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا عبدالرشید گنگوہی، حافظ ضامن شہید،حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حضرت مولاناحسرت موہانی، مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی  رحمہم اللہ وغیرہم کا نام لیا جاتا ہے؟

۔اسی طرح انڈیا گیٹ پر منقش 95300 میں سے 61945 مسلمان مجاھدین و شہداء میں سے کن کا نام لیا جاتا ہے حالانکہ ہم نے ہی جدوجہد آزادی میں سب سے زیادہ حصہ لیا اور قربانیاں پیش کیں، بلکہ اس کے بانی ہی ہم ہیں۔ ان قربانیوں کو جان بوجھ فراش کرد یا گیا ، چھپا دیا گیا اور عوام کی نظروں سے اوجھل کر دیا گیا۔ اب ان میں سے کچھ ناموں کے تذکرے مدرسے اور مکتب تک ہی محدود ہیں۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ گھر میں اپنے بچوں، مسجدوں میں اپنے مقتدیوں محلے  میں چھوٹے چھوٹے نکڑ سبھائیں کرکے سماج اور سوسائٹی میں بسنے والے برادران وطن کو جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں سے واقف کرائیں، کیونکہ جو قوم اپنی تاریخ سازوں یا تاریخ کی حصہ کی حیثیت رکھنے والی اہم شخصیات کو یاد نہیں کرتی اور فراموش کر  جاتی ہے اس کا مستقبل اور فیوچر یا تو ختم ہو جاتی ہے یا مردہ ہو جاتی ہے۔


Post a Comment

0 Comments

MK Advance Dental Hospital
Hopewell Hospital
Shah Residency IMG
S.R Enterprises IMG
Safe Aqua Care Pvt Ltd Image