ختم تراویح کا نذرانہ لینا اور دینا جائز:مفتی ثابت حسین

 


رمضان المبارک میں ختم تراویح کا نذرانہ لینا اور دینا جائز ہے, (مفتی ثابت حسین راحت قاسمی)  



 عام طور پر شعبان المعظم اور ربیع الاول کے پورے مہینے میں کثرت  سے دینی جلسے ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر جلسے" دستار بندی و اصلاح معاشرہ " اور" سیرت النبی و اصلاح معاشرہ" کے عنوان سے ہوتے ہیں ,جبکہ ان اصلاح معاشرہ کے جلسوں سے اب معاشرے کی کوئی اصلاح ہوتی نظر نہیں آتی ہےجواصلاح دعوت و تبلیغ کی چلتی پھرتی دعوت و محنت سے ہوتی نظر آتی ہے کیوںکہ اب یہ دینی جلسے اسٹیج ڈرامہ کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں, پیشہ ور نعت خواں شاعر جب نعت پڑھتے ہیں تو مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے اور جب کوئی مقرر تقریر کے لئے اسٹیج پر آتا ہے تو مجمع منتشر ہو جاتا ہے, پھر جیسے ہی نعت خواں شاعر اسٹیج پر آتا ہے پھر دوبارہ مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے اور شور شرابا و ہنگامہ کے ساتھ نعت خوانی چلتی ہے, پورے جلسہ کو فلمی دھنوں پر نعت پڑھنے والا نعت خواں شاعر ہائی جیک (اغواء) کر لیتا ہے,جبرا نعت خواں شاعر دونوں ہاتھوں کو لہراتے ہوئے ما شاء اللہ اور سبحان اللہ کے نعرے لگواتا ہے,اسٹیج میں موجود چھوٹے بڑے علماء تماشائی بنے بیٹھے رہتے ہیں, اس لئے اصلاح معاشرہ کے ان جلسوں کی اب خود اصلاح کی ضرورت ہے, ان جلسوں میں مہنگے اور پیشہ ور شعراء اور مقررین کے ہوائی سفر اور نذرانہ کی موٹی رقم پر لاکھوں خرچ ہوتے ہیں, جلسہ گاہ, اسٹیج کی تزین کاری, جگمگاتی بجلی کی روشنی اور بہترین ساؤنڈ سسٹم و ایکو سے بھر پور مائیک کا خرچ اور عمومی و خصوصی بریانی کے اخراجات الگ ہیں اور یہ سارے اخراجات عوامی چندے سے ہی پورے کئے جاتے ہیں, ان دینی جلسوں میں عوام کا پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے لیکن اسٹیج میں موجود  شعلہ بیان اور سحرالبیان مقررین اور علامہ وقت اپنے بیان اور تقریر میں قران و حدیث کے حوالے سے ان جلسوں میں دن بدن بڑھتی بدعات و خرافات اور فضولیات پرکبھی روشنی نہیں ڈالتےاور نہ عوام کو ترغیب دی جاتی ہے کہ کہ ہر قسم کے دینی جلسے مسجدوں میں ہونی چاہئے الا ما شاء اللہ, ان دینی جلسوں میں آنے والے پیشہ ور مقرر اور علماء اپنا نذرانہ یا تو پہلے ہی اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروالیتے ہیں یا پھر رخصت ہوتے ہوئے وصول کرلیتے ہیں, آخر ایک مقرر اور نعت خواں شاعر کو نذرانہ کی موٹی رقم کس بات کے لئے دی جاتی ہے ؟کیا ایک نعت خواں شاعر نے طئے شدہ موٹی رقم لے کر مدح رسول اور نعت رسول کا سودا نہیں کیا ؟ کیا نعت رسول کو نہیں بیچا؟ کیا ایک مقرر نے اپنی ایک ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر کا نذرانہ وصول کر کے قران و حدیث کی باتوں کا سودا نہیں کیا؟دین کی باتوں کو نہیں بیچا ؟ دینی گفتگو کا معاوضہ نہیں لیا ؟ سوال یہ ہے کہ سیرت النبی و اصلاح معاشرہ اور دستار بندی کے جلسوں کا جب موسم آتا ہے تو کیا اس وقت سوشل میڈیا اور اخباروں میں کسی چھوٹے بڑے دینی ادارےاورمفتی کی جانب سے اس موضوع پر فتوی جاری کیا جاتا ہے کہ نعت خوانی اور دینی بیان کا نذرانہ لینا جائز نہیں ہے؟ نعت خوانی اور دینی بیان کرکے نذرانہ وصول کرنا دراصل دین کو بیچنا ہے؟ لیکن جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو بہت سارے علماء و مفتی اور خطیب ممبر و محراب سے  اور اب سوشل میڈیا میں ختم تراویح کے نذرانہ لینے اور دینے پر بیان بازی اور فتوی بازی شروع کردیتے ہیں, جن حفاظ کرام کی بدولت دستار بندی کے جلسوں میں ہزاروں روپئے اپنی تقریر و بیان کا نذرانہ وصول کیا, رمضان المبارک کے آتے ہی انہیں حفاظ کرام کے خلاف ختم تراویح کے نذرانہ لینے اور دینے پر ناجائز ہونے کا فتوی اور بیان جاری کرنے لگ جاتے ہیں , آخر کیوں ؟ کہا جاتا ہے کہ ختم تراویح پر نذرانہ لینا اور دینا دراصل قرآن کو بیچنا ہے, قرآن کا سودا کرنا ہے,اگر ایسا ہے تو مسجدوں کے امام و خطیب, مؤذن,مدارس و مکاتب کے مہتمم و مدرس اور واعظین و مقررین نذرانہ, وظیفہ اور تنخواہ وصول کرکے دین کو نہیں بیچ رہے ہیں کیا ؟
امام شافعی و امام احمد بن حنبل رحمہا اللہ کے نزدیک تعلیم قرآن ,اذان و امامت اور دوسرے دینی امور پر اجرت لینا اور دینا جائز ہے جبکہ متقدمین احناف کے نزدیک طاعت پر اجرت لینا اور دینا ناجائز ہے لیکن بعد میں بدلتے ہوئے حالات اور دینی مصلحت و تقاضے کے پیش نظر" متاخرین فقہاء احناف نے امام شافعی کے قول اور مسلک کے موافق یہ فتوی دے دیا کہ ضرورت کے مواقع میں طاعت پر اجرت لینا جائز ہے اور قرآن شریف و حدیث و فقہ کی تعلیم اور اذان و امامت پر اجرت لینے کے جواز کی تصریح کردی کیونکہ یہ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے باقی نہ رہنے کی وجہ سے اسلامی حقیقت کا باقی نہ رہنا بھی مشکل ہے" (دینی خدمات اور معاوضہ 172) گویا دینی نقصان اور بہت ساری مصلحتوں کی بنیاد پر طاعت پر اجرت لینے اور دینے کو جائز قرار دیا گیا, 
پس جو توسع علماء احناف نے امام شافعی کے قول اور مسلک کے موافق طاعت مثلاً قرآن و حدیث و فقہ کی تعلیم اور اذان و امامت پر اجرت لینے اور دینے کو جائز قرار دیا, اسی پس منظر بہت ساری دینی مصلحتوں اور حبس اوقات کی بنیاد پر  ختم تراویح پر حفاظ کرام کے نذرانہ لینے اور دینے کو بھی متفقہ طور پر جائز قرار دینا چاہیے, جیسا کہ اس مسئلے پر بدلتے ہوئے حالات اور دینی مصلحت و تقاضے کے پیش نظر پہل کرتے ہوئے  12/ مئی 1986ء کو پندرہ مفتیان کرام کے دستخط سے خانقاہ رحمانی مونگیر نے جو ایک قدیم علمی و روحانی ادارہ ہے ایک فتوی جاری کیا جس میں امیر شریعت خامس حضرت مولانا منت اللہ شاہ رحمانی کا بھی دستخط اور تائید موجود ہے, جس کے مطابق ختم تراویح پر حفاظ کرام کا اجرت(نذرانہ) لینا اور دینا بالکل جائز اور صحیح ہے, امام ابوالفرج ابن جوزی جو چھٹی صدی ہجری کے مشہور و معروف محدث, محقق اور مؤرخ ہیں اپنی مشہور کتاب "سیرت العمرین "میں لکھتے ہیں کہ "حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اماموں اور معلموں کو وظائف اور تنخواہیں دیا کرتے تھے(سیرت العمرین ص165) 
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ ہمارے زمانے میں بیت المال کا نظام نہ ہونے کی بنیاد پر امام و مؤذن اور معلم قرآن و حدیث اجرت اور معاوضہ لے سکتے ہیں, اس اعتبار سے تراویح کی نماز پڑھانے والے حفاظ کرام بھی امام ہی میں داخل ہیں, قاضی ابو بکر محمد بن عبد اللہ ابن عربی اس مسئلے پر بحث و اختلاف کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "صحیح بات یہ ہے کہ اذان, نماز, قضاء اور تمام اعمال دینیہ پر اجرت لینا جائز ہے کیوں کہ امیر المؤمنین اور خلیفہ ان تمام امور پر بیت المال سے اجرت اور وظیفہ دیا کرتے تھے "(نیل الاوطار جلد 2 ص61, تحفة الاحوذی جلد 1 ص 164) اس عبارت سے بھی معلوم ہوا کہ اذان و امامت وغیرہ پر جب اجرت لینا جائز ہے تو تراویح کے نماز کی امامت پر بھی اجرت لینا اور دینا جائز ہونا چاہئے کیوں کہ تراویح کی نماز بھی بلا شبہ اعمال دینیہ میں شامل ہے ,لہذا تراویح کا نذرانہ لینا اور دینا جائز ہے, حدیث کی سب سے اعلی اور بلند ترین کتاب بخاری شریف میں حضرت محمد صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ "ان احق ما اخذتم عليه اجرا كتاب الله " ترجمہ, زیادہ مناسب چیز جس پر تم اجرت لے سکتے ہو کتاب اللہ ہے, (بخاری جلد 2ص 854) 
پس أج کے بدلتے ہوئے حالات اور دینی مصلحت و تقاضے کے پیش نظر تراویح میں قرآن سنانے والے حفاظ کرام کے متعلق بھی وہی توسیع اور فراخ دلی پیدا کی جائے جو تعلیم قرآن و حدیث و فقہ اور اذان و امامت کے متعلق پیدا کی گئی ہے,ان اعمال دینیہ پر اجرت لینے اور دینے کو حبس اوقات کی بنیاد پر جائز قرادیا گیا تو حفاظ کرام کا ختم تراویح پر اجرت لینا اور دینا بھی حبس اوقات کی بنیاد پر جائز ہے, تراویح میں قران سننے والوں کا ایمانی فریضہ ہے کہ وہ قرآن سنانے والے حفاظ کرام کی خدمت اپنی حیثیت سے بڑھ کر کریں, کیوںکہ اس حافظ قرآن نے دن بھر روزہ رکھ کر قرآن کو یاد کرنے اور رات کو تراویح میں قرآن سنانے میں اپنا وقت لگایا ہے, اپنی جان کھپائی ہے,حفاظ کرام نے قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ کر کے اپنے سینوں کو عملی طور پر دارالقران بیالیا,جس کی بنیاد پر خاندان کے دس افراد جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی حافظ قرآن کی سفارش سے جنت لے جانے کی بشارت رسول اللہ نے دی ہے ہم اس حافظ قرآن کی حوصلہ افزائی دنیا میں کیوں نہ کریں ؟ لہذا حافظ قرآن کے لئے نذرانہ لینا جائز ہے اور نذرانہ لینے والے حافظ کے پیچھے قرآن سننا باعث اجر و ثواب ہے, اس اعتبار سے نذرانہ لینے والے حافظ کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھنا بلا تأمل جائز اور باعث اجر و ثواب ہے,

Post a Comment

0 Comments

MK Advance Dental Hospital
Hopewell Hospital
Shah Residency IMG
S.R Enterprises IMG
Safe Aqua Care Pvt Ltd Image