شعبان المعظم کامہینہ اسلامی تقویم کے لحاظ سے آٹھواں مہینہ ہے اوربے پناہ عظمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے ۔شعبان شعب سے مشتق ہے جس کے معنی پھیل جانے کے ہیں ۔ چونکہ اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں اورنیکی کرنے والوں پر رحمتوں اوربھلائیوں کانزول ہوتاہے ۔ اسی رحمت وخیر کی وجہ سے اس مہینہ کو شعبان کے نام سے یاد کیاجاتاہے ۔ چنانچہ یہ مہینہ رحمتوں کے پھیلنے کاہے ۔ اس مہینے کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس طرح میں تمام نبیوں پر فضیلت رکھتاہوں اسی طرح شعبان کامہینہ دوسرے تمام مہینوں پر فضیلت رکھتاہے ۔ آپ ؐ نے مزید فرمایا کہ رمضان اللہ کامہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے ۔ا س مہینہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس مہینہ میں خدا ئے تعالی کے سامنے تمام بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جب اللہ کے رسول سے سوال کیا کہ یارسو ل اللہ آپ شعبان مہینہ میں اس قدر روزے کیوں رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ شعبان کامہینہ جو رجب اوررمضان کے درمیان ہے لوگ اس سےغافل ہیں ۔ اس میں خدائے تعالی کے سامنے بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ چنانچہ میں پسند کرتاہوں کہ میرے اعمال روزہ دار ہونے کی حالت میں پیش کئے جائیں ۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نقطہکی طرف امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ مہینہ تمہارے اعمال کے جائزہ لینے کاہے ۔ اس لئے اس میں خصوصی طور پر نیک اعمال کرنا چاہئے ۔ اس مہینہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں آئندہ سال مرنے والوں کا پروانہ ٔ حیات چاک کردیاجاتاہے ۔ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس میں خصوصیت کے ساتھ نیک اعمال کئے جائیں تاکہ اپنی زندگی کافیصلہ ہوتے وقت نیک کام میں مشغول ہوں ۔
شعبان مہینہ کی پندرہویں شب کو شب برأت کہتے ہیں ۔ چودہ اور پندرہ کی درمیانی شب کو پندرہویں شب کہاجاتاہے ۔ اس رات کی بہت سی خصوصیات اور فضائل مختلف حدیثوں سے ثابت ہیں ۔ جس سے اندازہ ہوتاہے کہ پورا ماہ شعبان خاص طور پر شب برأت غیرمعمولی اہمیت کاحامل ہے ۔ شب برأ ت کی فضیلت بیان کرتےہوئے ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس کی شب میں قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو۔ اس لئے کہ غروب آفتاب کے وقت سے اللہ تعالی آسمان دنیا میں نزول فرماتے ہیں اورندا دیتے ہیں کہ ہے کوئی مغفرت کاچاہنے والا کہ میں اسے بخش دوں ، ہے کوئی رزق کامانگنے والا کہ میں اسے رزق عطا کروں ، ہے کوئی مصیبتوں سے نجات مانگنے والا کہ میں اسے نجات دوں ، ہے کوئی بیماریوںسے شفا ء مانگنے والا کہ میں اسے شفا دوں ، ہے کوئی ایسا ، ہے کوئی ویسا ، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے ۔
شب برأت کے بارے میں یہ بھی آتاہے کہ اس رات میں اللہ تعالی نے پوری امت کے بارے میں اپنے محبوب محسن انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول فرمائی ۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہویں شعبان کی رات میں اپنی امت کے لئے دعائے مغفرت فرمائی توا یک تہائی امت کے بارے میں آپؐ کی دعا قبول ہوئی ، چودہویں رات میں دعا فرمائی تو دو تہائی امت بخش دی گئی پھر پندرہویں رات میں دعا فرمائی تو پوری امت کے بارے میں آپؐ کی دعا قبول فرمائی گئی ۔ لیکن ان لوگوں کو مغفرت سے الگ رکھاگیا۔ جو اللہ سے اس طرح بھاگیں جس طرح اونٹ بدک کربھاگتاہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا شب برأت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ شعبان مہینہ کی پندرہویں شب کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آج شعبان کی پندرہویں شب ہے اس رات میں اللہ تعالی قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتاہے اوردوزخ سے آزاد کرتاہے ۔ لیکن اللہ تعالی ایسے بندوں کی طرف رحمت کی نظر نہیں کرتا جو اس کے ساتھ شرک کرتےہیں ، جو کینہ رکھتے ہیں ، جو گھمنڈ کرتے ہیں ،جو جادو کرتےہیں ، جو شراب پیتے ہیں ، جو سود کھاتے ہیں ، جو والدین یعنی ماں باپ کی نافرمانی کرتےہیں ، جو ٹخنوں سے نیچے پائجامہ پہنچے ہیں ، جو قاطع رحم یعنی رشتوں کو توڑنے والے ہیں ایسے لوگ بڑے بد قسمت ہیں جو اس برکت والی رات میں بھی اللہ کی رحمتوں اور بخششوں سے محروم ہوجاتےہیں ۔ہاں ایسے لوگ اگر خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں اورسچی توبہ کرلیں تو بلاشبہہ یہ لوگ بھی اللہ کی رحمتوں کا حقدار بن جائیں گےاور محرومی نہیں ہوگی ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ماہ شعبان کی پندرہویں شب وہ رات ہے ۔ جس میں رحمتیں تقسیم ہی نہیں کی جاتی بلکہ صحیح معنی میں رحمتیں لٹائی جاتی ہیں ۔ کسی نے بہت خوب کہاہے ۔
کس چیز کی کمی ہے مولا تیری گلی میںدنیا تیری گلی میں عقبی تیری گلی میں
ہزاروں ایسے بدنصیب ہیں کہ اس خیرو برکت والی رات کو یوں سمجھتے ہیں کہ کھیل کود اورپٹاخے چھوڑنے کے واسطے ہے جو لوگ کبھی تمام سال پٹاخوں کوہاتھ بھی نہیں لگاتے وہ بھی شب برات میں اس بلا میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ بہت سے ایسے ہیں کہ اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتےلیکن اوروں کا تماشہ دیکھتے ہیں اورتمام رات لہو ولعیب میں گزار دیتےہیں ۔جس طرف دیکھئے گلی کوچوں میں پٹاخے کی بدبو پھیل رہی ہے ، آگ اچھل رہی ہے ، مسافروں اور لوگوں کو راستہ چلنا دشوار ہورہاہے ، جابجا شوروغل ہورہاہے ، اپنے مال کو جلا کر برباد کررہے ہیں اور خوش ہوکر قہقہے لگارہے ہیں ۔ بعض لوگ ذرا دینداری کا دم بھرتے ہیں وہ تماشہ نہیں دیکھتے لیکن اپنی اولاد کو پٹاخے وغیرہ منگا دیتے ہیں اس پرکوئی اعتراض کرتاہے تو جواب دیتے ہیں کیا کریں بچے ضد کرتے ہیں مگر ان کا جواب بالکل غلط ہے ۔ ایمان والوں کا یہ کام نہیں ہے کہ اولاد کی خوشی اور رضا مندی کے واسطے اللہ کی نافرمانی کریں ۔ پھر یہ فضول خرچی ہے اورفضول خرچی کرنے والوں کو قرآن میں شیطان کابھائی قرار دیاگیاہے ۔ آسمانوں سےخدا کی رحمت تو زمین کی طرف آتی ہے تاکہ اپنے بندے کے گناہوں کو معاف کیاجائے مگر لوگ ہیں کہ آگ کے شعلے آسمان کی طرف چھوڑتے ہیں ، آتش بازی سے ملک کانقصان ہے ،ملت کانقصان ہے اور سب سے بڑھ کردین کانقصان ہے ۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو فضول خرچی سے بچائے اورشب برأ ت کی قدر کرنے کی توفیق عطا کرے ۔
0 Comments