اصلاح معاشرہ کے جلسوں کو خود اصلاح کی ضرورت:مفتی ثابت
رانچی: عام طور پر شعبان المعظم اور ربیع الاول کے پورے مہینے میں کثرت سے دینی جلسے ہوتے ہیں۔ جن میں زیادہ تر جلسے" دستار بندی و اصلاح معاشرہ " اور" سیرت النبی و اصلاح معاشرہ" کے عنوان سے ہوتے ہیں ۔جبکہ ان اصلاح معاشرہ کے جلسوں سے اب معاشرے کی کوئی اصلاح ہوتی نظر نہیں آتی ہے۔جواصلاح دعوت و تبلیغ کی چلتی پھرتی دعوت و محنت سے ہوتی نظر آتی ہے۔ کیوںکہ اب یہ دینی جلسے اسٹیج ڈرامہ کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں ۔پیشہ ور نعت خواں شاعر جب نعت پڑھتے ہیں تو مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے اور جب کوئی مقرر تقریر کے لئے اسٹیج پر آتا ہے تو مجمع منتشر ہو جاتا ہے۔ پھر جیسے ہی نعت خواں شاعر اسٹیج پر آتا ہے پھر دوبارہ مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے اور شور شرابا و ہنگامہ کے ساتھ نعت خوانی چلتی ہے۔ پورے جلسہ کو فلمی دھنوں پر نعت پڑھنے والا نعت خواں شاعر ہائی جیک (اغواء) کر لیتا ہے۔جبرا نعت خواں شاعر دونوں ہاتھوں کو لہراتے ہوئے ما شاء اللہ اور سبحان اللہ کے نعرے لگواتا ہے۔اسٹیج میں موجود چھوٹے بڑے علماء تماشائی بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ اس لئے اصلاح معاشرہ کے ان جلسوں کی اب خود اصلاح کی ضرورت ہے۔ ان جلسوں میں مہنگے اور پیشہ ور شعراء اور مقررین کے ہوائی سفر اور نذرانہ کی موٹی رقم پر لاکھوں خرچ ہوتے ہیں۔ جلسہ گاہ۔ اسٹیج کی تزین کاری۔ جگمگاتی بجلی کی روشنی اور بہترین ساؤنڈ سسٹم و ایکو سے بھر پور مائیک کا خرچ اور عمومی و خصوصی بریانی کے اخراجات الگ ہیں اور یہ سارے اخراجات عوامی چندے سے ہی پورے کئے جاتے ہیں۔ ان دینی جلسوں میں عوام کا پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ۔لیکن اسٹیج میں موجود شعلہ بیان اور سحرالبیان مقررین اور علامہ وقت اپنے بیان اور تقریر میں قران و حدیث کے حوالے سے ان جلسوں میں دن بدن بڑھتی بدعات و خرافات اور فضولیات پرکبھی روشنی نہیں ڈالتے۔اور نہ عوام کو ترغیب دی جاتی ہے کہ کہ ہر قسم کے دینی جلسے مسجدوں میں ہونی چاہئے الا ما شاء اللہ۔ ان دینی جلسوں میں آنے والے پیشہ ور مقرر اور علماء اپنا نذرانہ یا تو پہلے ہی اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروالیتے ہیں یا پھر رخصت ہوتے ہوئے لفافے کی شکل میںوصول کرلیتے ہیں۔ آخر ایک مقرر اور نعت خواں شاعر کو نذرانہ کی موٹی رقم کس بات کے لئے دی جاتی ہے ؟کیا ایک نعت خواں شاعر نے طئے شدہ موٹی رقم لے کر مدح رسول اور نعت رسول کا سودا نہیں کیا ؟ کیا نعت رسول کو نہیں بیچا؟ کیا وقت کے تالی قرآن اپنے قرآن کا سودا نہیں کیا؟کیا ایک مقرر نے اپنی ایک ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر کا نذرانہ وصول کر کے قران و حدیث کی باتوں کا سودا نہیں کیا؟دین کی باتوں کو نہیں بیچا ؟ دینی گفتگو کا معاوضہ نہیں لیا ؟ سوال یہ ہے کہ سیرت النبی و اصلاح معاشرہ اور دستار بندی کے جلسوں کا جب موسم آتا ہے تو کیا اس وقت سوشل میڈیا اور اخباروں میں کسی چھوٹے بڑے دینی ادارےاورمفتی کی جانب سے اس موضوع پر فتوی جاری کیا جاتا ہے ،کہ نعت خوانی اور دینی بیان کا نذرانہ لینا جائز نہیں ہے؟ نعت خوانی اور دینی بیان کرکے نذرانہ وصول کرنا دراصل دین کو بیچنا ہے؟ لیکن جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو بہت سارے علماء و مفتی اور خطیب ممبر و محراب سے اور اب سوشل میڈیا میں ختم تراویح کے نذرانہ لینے اور دینے پر بیان بازی اور فتوی بازی شروع کردیتے ہیں۔ جن حفاظ کرام کی بدولت دستار بندی کے جلسوں میں ہزاروں روپئے اپنی تقریر و بیان کا نذرانہ وصول کیا۔ رمضان المبارک کے آتے ہی انہیں حفاظ کرام کے خلاف ختم تراویح کے نذرانہ لینے اور دینے پر ناجائز ہونے کا فتوی اور بیان جاری کرنے لگ جاتے ہیں ۔ آخر کیوں ؟ کہا جاتا ہے کہ ختم تراویح پر نذرانہ لینا اور دینا دراصل قرآن کو بیچنا ہے۔ قرآن کا سودا کرنا ہے۔اگر ایسا ہے تو مسجدوں کے امام و خطیب۔ مؤذن،مدارس و مکاتب کے مہتمم و مدرس اور واعظین و مقررین نذرانہ۔ وظیفہ اور تنخواہ وصول کرکے دین کو نہیں بیچ رہے ہیں کیا ؟
مضمون نگار،مفتی ثابت حسین راحت قاسمی ابن حضرت مولاناڈاکٹر عبیداللہ قاسمی
مفتی ثابت حسین راحت قاسمی
0 Comments